پیارے خاموش خدا اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم کیا مانتے ہیں
میں غم زدہ اور قائل ہوں کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے
ان سرد لمحات میں تمہارا آسرہ لوں، اور اس خلا کو تمہارے نام سے پر کروں
ایک جگہ اور دوسری جگہ کے بیج کھنچا ہوا میں بے یقینی کے عالم میں
ٹمٹماتے ہوئے ہر بہار نشاندہی کرتی ہے
مجھے تاریخ سمجھاؤ مجھے تدبیر بتاؤ
میں اپنی ناآشنا پنپتی ہوی زندگی کو پھر سے جھانچتا ہوں
طاغوت سے بلکل بےخبر
نفي سے سرشار
اپنی غیر اظہار شدہ واجود کی گاواہی دینے کو بیتاب