Poetry
Thousand Languages Issue 2
ہڈیاں
Asna Nusratجب اُس کی بیٹی نے ُبلا کربتایا کہ گھوڑا کانپ رہا ہےاوراس کے گردن کے بال جھاگ ُنما اورچمکدارلگ رہے ہیں، ماں نے بڑی سنجیدگی سے کہا
"بیٹا اسے باہر لے آؤ" اور پھر دہرایا، "بس اسے اصطبل سے باہر لے آؤ"
بغیر کسی کیوں کا جواب دیئے کہ اگر اسے باہر نہ لایا گیا اور وه وہیں مر گیا تو بعدازمرگ اس کا جسم آخری سانس میں اکڑ جائیگا اور باہر نکالنا ناممکن ہو جائے گا۔ اور پھر انجام دہنده کو گھوڑے کی ٹانگیں توڑ کے ہڈیوں کے ڈھیر کو باہر نکالنا پڑے گا۔
اور یوں جب بھی وه اپنے باپ کو رات میں بستر میں لیٹے پیر کی اُنگلیاں موڑتے
یا پنسار کی ُدکان پہ کھڑے کسی گاہک کو اپنی اُنگلیاں چٹختے
یا ُمرغی کی ریڑھ کی ہڈی چاپڑ کے نیچے آتے سنے گی
وه آواز اس کے کانوں میں دوباره گونجے گی
جیسے کانچ کی اُنگلیاں
ایک بار
دوبار
باربار
ٹوٹیں۔
اور آخر وه آواز جب اس ٹوٹے ہوئے بےہئیت جسم کے نیم گرم ٹکڑے ایک من بھر بوری میں بند تین آدمی اسی فرسوده، َضرر رسیده زمین پر گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے۔