Hybrid Genre
Thousand Languages Issue 2
افسانئہ تغیرِ ہئیت
Asna Nusratیوں ہمیشہ نہیں ہوتا لیکن گاؤں میں اس لڑکی کی کوکھ کو قابل احترام مانا جا تا تھا۔ اس کے بچے کا باپ خودتو ٹریکٹر کے ساتھ ہونیوالے حادثے کی نظر ہو گیا لیکن اپنی نشانی پیچھے چھوڑ گیا۔ حادثہ کی وجہ: ایک ٹیلہ جونظروں سے اوجھل ہوتے ہی ٹریکٹر سے یوں ٹکرایا کہ ایک جھٹکے میں سب خاک ہو گیا۔ یہ نئی نویلی بیوہ کچھ ہی دنوں میں ماں بننے والی تھی اس لئے گاؤں والوں نے عہد کیا کہ اس کی بیوگی کی خبر اس تک پہنچنے نہ دینگے۔
"!ہائے یہ بچہ! یہ بچہ"
گاؤں والوں کی سرگوشیوں نے ہو نیوالی ماں کو گھیر رکھا تھا۔ دھوپ اور پسینے سے بھیگے ہاتھوں نے ماں اور بچے کو اپنی آغوش میں سمیٹا ہوا تھا۔ اور کیوں نہ کر تے؟ مرحوم بڑا ہی رعب دار، ہر دلعزیز شخص تھا۔
گاؤں والے ایک آس لئے بیٹھے تھے۔ آنےوالا ہم سے بہتر ہوگا۔ انکے خوابوں میں یہ معمولی لڑ کی ایک روایتی کردار بن چکی تھی۔بالکل جس طرح قصے کہانیوں میں عورت کو گاۓ یا درخت یا دریا بنا دیا جا تا ہے یا ان کے ہنسوں، بیلوں یا دریاؤں کے ساتھ مباشرت کے خاکے کھینچے جاتے ہیں۔وہی روا تیں جہاں کوئی خداۓ نبات ایک معصوم عورت کو باغ ممنوع کا پھل چکھنے پرآ بروریز کر دیتا ہے۔
گاؤں والے کہہ رہے ہیں اس لڑکی کی کوکھ تیار ہے ۔کسی بھی لمحے نومہینوں کی محنت کا پھل جنم لے سکتا ہے۔ لیکن اس کا شوہر زندہ ہوتا بھی تو کبھی پھل پھول نہ پاتا۔ اور یوں اس عورت نے جان لیا کہ اس کی کوکھ میں ہی اس کی تبد یلی, اس کے تغیر کا جنم ہوگا۔ مگر وہ کیا چاہتی ہے؟ اور اس کی کوکھ کیا چاہتی ہے؟
وہ لڑکی بے دم ہے، ہر چڑھتی سانس گن رہی ہے۔ بچہ پیٹ میں زلزلے کی طرح حرکت کر رہا ہے۔ اس کے ننھے ہاتھ اور پیر ماں کے پیٹ کی دیواروں پر اپنے نشان بنارہے ہیں۔ ماں اپنے بچے کی ننھی انگلیوں کو چھونا چاہتی ہے۔ وہ اپنے بچے کو دنیا میں لانے کے لئے بے صبر ہے۔ وہ اکیلے رہنا چاہتی ہے۔ کہیں دور بھاگ جانا چاہتی ہے جہاں وہ تنہائی میں بیٹھ کے مٹھائی کھا سکے۔
وہ لڑ کی بھا گنے لگتی ہے اور بھاگتے بھاگتے اس کی کمر میں ایک زبردست چپک آجاتی ہے۔ وہ ایک قبرستان کے پاس ٹھہر جاتی ہے۔ اسے نظر آرہا ہے کہ قبروں کی کھدائی میں وہی پرانی مٹی نئی استھیوں نئی ہڈیوں کے نیچے دبا دی جاتی ہے، وہی پرانی مٹی اور اس کے اوپر گلے سڑے کوڑھے کا ڈھیر اور ٹوٹے برتنوں کی کرچیاں، وہی ٹوٹی ہوئی کہانیاں جوکبھی چٹخ کے پھر بن نہ سکیں، گاؤں والوں کی ادھر ادھر کی باتیں۔
اب یہ ثابت ہے ، وہ اپنے آپ سے دہراتی ہے، کہ ایک مردہ ڈھانچہ مردار ہی رہے گا بیشک جہاں سے بھی نمودار ہوا ہو۔